جنون،نون اور قانون

تحریر: پروفیسر لیاقت علی مغل
آخر خدا خدا کرکے جنون نون اور قانون والے اپنے اپنے حربے اورہتھکنڈے استعمال کئے اور ٹھنڈے ہوگئے جنون والوں نے اپنے جنونی ہونے کا ثبوت دینے کی کوشش کی لیکن یکبارگی جنون ہوا ہوگیا نون والوں نے اس دوران نون(نمک) چھڑکنے کی بھرپور کوشش کی اور ان کے دھرنے ،لاک ڈاﺅن ،جلسے اور احتجاج کو استہزائیہ اندازمیں اڑاتے رہے اور میں نہ مانوں کے فارمولے پر عمل پیرا رہے جبکہ تیسری طرف قانون والے تھے جو جنون اور نون والوں کے درمیان بطور سینڈوچ کا کردار ادا کررہے تھے ان کے منہ میں چھچوندر ڈال دیا گیا تھا اب نہ نگل سکتے تھے اور نہ اگل سکتے تھے ایک طرف کھائی تو دوسری طرف آگ کا سمندر تھا اس کے باوجود انہوں نے مار کھار اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی کوشش کی جلاﺅ گھیراﺅ بچاﺅاور بھگاﺅ والی پالیسی کو اختیار کرکے حتی المقدور کوشش کی اور اسی کاوش کو سراہتے ہوئے وزیر داخلہ چوہدری نثار نے ان کو انعام سے نوازتے ہوئے ان کی وفاﺅں کے صلے میں تنخواہوں میں اضافہ کردیا۔ یعنی کسی کو فائدہ ہو نہ ہو قانون والے پھر سے مستفید کردیئے گئے جبکہ جنون اور نون والے اب عدالتی لڑای میں ایکدوسرے کو نیچا دکھانے کیلئے پرتول چکے ہیں لیکن یہ عدالتی جنگ ہے اس میںگالم گلوچ لغویات اور غیراخلاقی افعال سے احتراز برتنا پڑے گا ورنہ توہین عدالت کے زمرے میں بھی جایا جاسکتا ہے اور اگر ایسا ہوا تو دونوں فریقین کی عدالتی جنگ بے سود ہوگی اور دونوں ہی ڈھک دیئے جائیں گے قطع نظر اس سے کہ اس کے چانسز بہت کم ہیں
تجزیہ کاروں اور وقائع نگاروں نے بھی اس سلسلے میں بہت طبع آزمائی کی ہوئی ہے ہر ایک کانقطہ نظر دوسرے سے مختلف ہے کو ئی اسے مسلم لیگ ن والوں کی جیت تصور کررہا ہے تو کوئی اسے پاکستان تحریک انصاف سے سر سہرا سجانے پر آمادہ ہے جبکہ ایمپائر کی انگلی کو بھی فی الوقت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا عمران خان کے رویوں اورطرز عمل پر حسب معمول تنقید جاری ہے اور اسے بےوقوفی سے تعبیر کیا جارہا ہے اور کہیں کہیں تو اسے پاکستان تحریک انصاف کی ناکامی پر تشبیہ دی جارہی ہے جبکہ پاکستان مسلم لیگ نون کی تاریخی کامیابی سے منسوب کیا جارہا ہے۔ بعینہ دوسری طرف نون لیگ والوں کو ان ڈھٹائی اور قانون شکنی پر لعن و طعن کا سلسلہ بھی جاری و ساری ہے اور اسے عمران کی کامیابی تصور کیا جارہا ہے کوئی مان رہا ہے اورکوئی انکاری ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی اس تمام سیناریو میںاپنا کردار کہیں گم کرچکی ہے اور گزشتہ حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ پی پی پی اور مسلم لیگ نون جس طرف جانا چاہ رہی تھی ان کا وہ مقصد پورانہ ہوسکا۔پی ٹی آئی والوں کو شاباش ٹھیک ہے کاکہہ کران کو شہہ دینا اور نون لیگ والوں کا ان کو انگیختہ کرنا اس بات کا واضح اشارہ تھا کہ عمران خا ن اور پاکستان تحریک انصاف ملک میں اس طرح کی صورت حال پیدا کردیں کہ ملک بدامنی اور انتشار کی طرف چلا جائے اور کوئی ایسی صورت حال پیدا ہوجائے کہ وہ مستقبل کیلئے پھر سے سیاسی شہید یا سیاسی مظلوم بن جائیں اور پھر سے انہیں معاہدے کے مطابق باری مل سکے۔لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے کے مصداق ہر خواہش پوری نہیں ہوتی۔
الحمدللہ! پاکستان میں ایسے ذہین و فطین اور محب وطن لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو ان سیاستدانوں کو جیب میں رکھ کر چلنے کی اہلیت و قابلیت رکھتے ہیںاور ان کی حب الوطنی اور عوام دوستی اب تک پاکستان کو بچائے ہوئے ہے پس منظر میں رہتے ہوئے عوامی خدمت کا کام سرانجام دے رہے ہیںآج تک کی صورت حال کو بغور دیکھا جائے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوچکی ہے کہ تمام سیاسی پارٹیوں کے لیڈر اور ان کے نمائندوں کے کردار کو آئینہ کی مانند دنیا اور پاکستانی عوام کے سامنے پیش کردیا گیا ہے ایم کیو ایم کی ملک دشمنی اور دہشت گردوں سے روابط، پیپلزپارٹی کی بے انتہا کرپشن نااہلی ، پاکستان مسلم لیگ ن کی بے ایمانی و تیز طراری اور شدت پسندی جبکہ پی ٹی آئی کی جنونی و غیر یقینی کی کیفیات دنیا کے سامنے عیاں ہوچکی ہے ان لوگوں نے نام نہاد جمہوریت کو نقصان پہنچائے بغیر سب کو ننگا کرکے رکھ دیا ہے واضح پیغام دے دیا گیا ہے کہ کو ن کسی قماش اور کس ذہنیت کا مالک ہے کون ملک سے کتنا وفادار ہے عوام کا کتنا خیرخواہ ہے عوام سے وفاداری کا دعوی کتنا سچا ہے۔ مزید چند روز میں اگر حسب روایت نظریہ ضرورت کو درمیان میں نہ لایا گیا تو بہت سوں کے کپڑے پھر سے اتریں گے ۔اب یہ ان پر منحصر ہے کہ وہ اس صورت حال کے بعد کتنی ڈھٹائی اور بے شرمی کا مظاہرہ کرتے ہیں ایک طرف کا کام مکمل ہے اب دوسری طرف والوں کا کام باقی ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں