تحریر:عظمٰی ایاز عباسی
دو سال قبل جامعہ کراچی میں ایک سمینار منعقد کیا گیا تھا جسمیں مجھے ایدھی سوشل ورکنگ کے مثبت اور منفی کرادار کو اجاگر کرنا تھا تھا لہٰذا ایدھی ہیڈ آفس یا ایدھی فاﺅنڈیشن کا وزٹ لازمی قرار پایامقصد پرزینٹیشن کو مزید جاندار اور اچھا ثابت کرنا تھا
اور پھر یہ کلاس میٹس کے ساتھ ایک یادگار وزٹ بھی بن گیالہٰذا طے شدہ پلان کے مطابق سہراب گوٹھ میں واقع دارالامان کو ترجیح دی گئی اور اس سے وہاں مقیم شدہ خواتین سے گفتگو کا بھی موقع ملا اور ایدھی اہلکاروں نے تمام تر معلومات سے اپ ڈیٹ کیا اور ایدھی سروسز کے بارے میں بہتر انداز میں ہماری ( COUNCILING) کی گئی اور اس کے بھی ہم نارمل خواتین سے بات چیت کرتے رہے ان کی روزمرہ زندگی کے ساتھ کا جائزہ کھانے پینے کی سہولیات تعلیم اور وہاں موجود مشینری جیسے باقاعدہ گی سے دستکاری اور دوسرے ہنر سکھانے کے لیے استعمال کیا جا رہا تھا پڑھی لکھی خواتین سیفٹی کے ساتھ تعلیم اور جابز کی سہولیات کے ساتھ زندگی گزارنے کے لیے بہتر خواتین مواقع جس سے وہ مایوسی کو ختم کر کے اپنی پچھلی زندگی بھلا کر آگے بڑھیں اسی اثناءمیںنارمل خواتین سے بات چیت کے بعد ایدھی ٹیم کی رہنمائی میں ہم ایک بڑھا صحن عبور کر کے عقبی دروازے کی سمت بڑھے اور دروازہ کھلنے پر سامنے کے مناظر بڑے تکلیف دہ تھے نگاھیں پر سوچ اورقفس کی حالت میں تھی
ایدھی کئیر لیڈی نے مخاطب کر تے ہوئے بتایا کے یہ پورے ملک میں سے وہ خواتین ہیں جو کسی کی دھوکہ دہی، طلاق،گھر والوںکے ڈر سے خوفزدہ، سسرال کے تشدد اور معاشرے کی ستم ظریفی سے اپنا ذہنی توازن کھو چکی ہیں ایدھی کئیر ٹیم اور ایدھی ڈاکٹر ز انھیں پوری طرح سے سنبھالے ہوئے تھی انھیں زندگیوں کی طرف لانے کے لیے علاج اور دماغی مشقیں کرائی جار ہی تھی۔ انکی یاداشت اگر کچھ باقی تھی تو اسمیں انکی زندگی تلخ باب اور معاشرے کی ستم ظریفی پوری طرح چہروں پر عیاں تھی لیکن اب وہ “دارلامان”میں پر امن تھی اور مکمل خوف وخطر سے باہر تھی حقیقتاً وہ “اپنا گھر”کو گھر سمجھنے میں کوشاںتھی رستہ بھر زہن میں منظر کشی رہی خوبصورت اور جوان لڑکیاں جنھیں اس معاشرے نے کوڑا کچرا سمجھ کر باہر پھینک دیا اور ایدھی دارالامان نے پناھ دی نہ صرف پنا ہ دی بلکہ انھیں زندگی کی طرف لوٹنے کے لیے علاج اور کئی سہولیتں بھی مہیا کی اور خوشی سے انکو انکی اوالادوں سے سمیت اپنا یا ہال میں موجود انا ونسرنے پوری توجہ سے میرا ٹاپک یا د دلایا ! لیکن الفاظ اب اپنا رویہ تبدیل کرچکے تھے مثبت پہلو یا منفی پروپیگنڈا؟؟ تو معزز سامعین حضرات سب سے پہلے میں ایدھی سروسز کے مثبت کا پہلوآپکو اور پوری دنیا کو دکھاتی ہوں! عبدالستار ایدھی عجز و انکساری کا پیکر انسانی فلاح و بہبود کے عظیم رہنما خلق خدا کی خدمت کے لیے آخری لحمات تک کوشاں ایک درخشندہ ستارہ جس نے بہت پہلے اپنے ناتوان کندھوں پر کینسر کی مریضہ ماں کی ذمہ داری اٹھائی علاج معالجے کے لیے بھاگ دوڑ کے بعد ایدھی کو دل میں عجیب سی کسک محسوس ہوئی جو بعد میں انسانیت کے درد کی تسکین بن کر ایدھی پر غالب ہوگئی ماں کے گزرنے بعد ایدھی کے بے چین دل نے غریبوں نے سہاروں کے لیے ایک چھوٹی سے ڈسپنسری قائم کی جس میں ادویات کے ساتھ مفت علاج ہونے لگا پھرایدھی نے انسانی خدمت کے لیے دن رات ایک کردیئے اور نو عمری میں دوسروں کی داد پرسی کے لئے اپنے ہاتھ پھیلانا شروع کر دیئےاور ایک پر کٹھن راستے کو اپنا رستہ تو چن لیا پر بہت سے ناداروں، غریبوں ، لاوارثوں، محتاجوں، یتیموں ، پاگلوں، معذروں کو منزل مل گئی تو جی ہاں! اب ملک بھر ایدھی فاﺅنڈیشن کی 1200زائد ایمبولینس کام کر رہی ہیں ان میں 300کراچی کے لیے وقف ہیں اس کے علاوہ ایدھی فاﺅنڈیشن کے پاس دو طیارے ایک الیکٹرا سپیڈ بوٹ دوبوٹ موجود ہے۔ مزید 3ایمبولینس اس بیٹرے میں شامل ہوجائینگی ایدھی فاﺅنڈیشن کا نیٹ ورک ملک کے ایک سو سے زائد شہروں میں موجود ہیں سب سے بڑے شہر کراچی میں 8اسپتال اور دو کینسر اسپتال جہاں غریبوں ،بے کسوں، لاوارثوں کا مفت علاج اور ادویات فراہم کیجاتی ہیں۔ “اپنا گھر”کے نام سے 15عمارتیں موجود ہیںجہاں ملک بھر کے نفسیاتی مریضوں، بوڑھوں ، پاگلوںنشے بازوں کے لیے مکمل خوراک رہائشی اور علاج کا مکمل بندوبست ہے ایدھی فاﺅنڈیشن، امریکہ، برطانیہ، بنگلہ دیش، افغانستان، عراق، چیچنسینا، سوڈان، ایتھوپیا، سمیت، مختلف ممالک میں مذہب، انسانیت اور کسی بھی تعصب سے بالا تر ہو کر خد مت خلق پر مامور ہیں پوری دنیا میں ایدھی انسان دوستی کی مثال دی جاتی ہے ۔
یورپین ملکوں میں عقیدت اور محبت کے طور پر ایدھی کو “فادر ٹریسا”اینجل آف مرسی کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔1986میں فلپائن حکومت نے ملک کے سب سے بڑے ا عزاز سے عبدالستار ایدھی کو نوازا گیا۔ 1988میں انھیں متحدہ عرب امارات ، طبی خدمات برائے انسانیت امن و بھائی چارہ کا ایوارڈ دیا گیا1992میں پیرس آف فیلوروٹری انٹرنیشنل فاﺅنڈیشن کا ایوارڈ جبکہ2009میں انہوں نے یونیسکو کا ایوارڈ بھی اپنے نا م کیا عبدالستار ایدھی آج سے تقریباً 31سال پہلے 1985میں مواچھ گوٹھ میں ایدھی قبر ستان قائم کیا جہاں لاوارث افراد کو سپرد خاک کیا جاتا ہے ٹیم نے مزید بتایا کے ایدھی سرد خانے میں ایک وقت میں 150 سے زائد میتتوں کو رکھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں کوئی آفات، سیلاب یا پھر18اکتوبر کا زلزلہ ایدھی صاحب ہر جگہ پیش پیش نظر آئے انکی یہ خدمت انسانی قابل تحسین عمل ہے۔ اور کئی کتابوں پر مشتمل انکے ہر عظیم کارنامے نقش اندوز ہوسکتے ہیں۔ حالیہ دنوں ایڈین لڑکی گیتا ایدھی کے زیر شفقت رہنے کے بعد جب واپس لوٹی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے ایدھی فاﺅنڈیشن کے لیے ایک کروڑ امداد کا اعلان کیا تھا جو ایدھی صاحب نے شکریہ کے ساتھ لینے سے انکار کردیا ایدھی کے ان امراجات سے ہمارے حکمرانوں کے لیے کھلا پیغام ہے کہ ہاتھ تو وہ بھی پھیلاتے ہیں مگر اپنے لیے اپنی عیاشیوں کے لیے لیکن ایدھی صاحب نے ساری عمر شاھی گو گدائی پر گزارہ اور یہ سبق دیا کے انسانیت کی خدمت کسی بلنگ وبانگ دعوے سے ممکن نہیں اس کے لیے ظاہر و باطن کا صاف ہونا دکھی انسانیت کے درد کو اپنا درد محسوس کرنے سے ممکن ہے کیونکہ یہ خلق و خدا کا معاملہ ہے اور اسکی خدمت سے خدا مل جاتا ہے لہذا معزز سامعین میں جانتی ہوں میرے ٹاپک کا اگلہ حصہ منفی پہلو کو بھی سامنے لانا تھا لیکن معذرت کے ساتھ میں روایتی سوچ اور ان تمام ہتھکنڈوں کی انکاری ہوں جس تنقید کے نیچے دب کر مثبت کام کو روکنے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کھڑی کی جاتی ہے اور بہت سے ضرورت مند لوگوں کو ایدھی سہولیات سے محروم کردیا جائے۔ معززسامعین وقارئیں آئیے ہم سب عہد کریں کے اگر ہم ایدھی بن نہیں سکتے تو ہم ایدھی پلیٹ فارم پر دکھی انسانیت کی مدد کر کے اانسان ہونے کا ثبوت دیں۔